تحریر: مولانا محمد علی انصاری
حوزہ نیوز ایجنسی। تاریخ میں غور سے اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو جاتاھے کہ بہت سے عجائب داستانیں غربت اور مظلومیت کے متعلق ہمیں ملتی ہیں۔ بہت سے بے گناہ مسلمانوں کاقتل عام اور المناک واقعہ ظلم وبربریت قتل وغارت کی حکایتوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن تاریخ سانحہ کربلا کی نظیر تاریخ میں ہمیں نہیں ملتی نہ گذشتہ میں ایسا واقعہ رونما ہوا ہے اور نہ آیندہ ہوگا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ بہتر ہے کہ اس سوال کا جواب ہم روایت سے ہی اخذ کریں گے :
1: ابن بابویہ نے عبداللہ ابن فضل سے ایک مستند حوالہ سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا: میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: "یابن رسول اللہ ، عاشورہ غم ، اندوہ ، جزع وفزع اور رونے کا دن کیوں ہے؟ ، اور کیوں وہ دن جب نبی کا انتقال ہوا اور جس دن حضرت فاطمہ صلوات اللہ نے دار فانی کو الوداع کہا۔ اور جس دن حضرت امیر المومنین صلوات اللہ علیہ شہید ہوئے اور جس دن حضرت امام حسن علیہ السلام کو زہر دیا گیا۔کیا یہ مصیبت کے لحاظ سے اس دن کی طرح نہیں ہے؟ حضرت نے فرمایا: حسین کی شہادت کے دن ، اس کی مصیبت تمام دنوں سے زیادہ عظیم ہے ، کیونکہ اصحاب کسا اور آل عبا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ گرامی ترین اور معزز لوگ تھے ، اور لوگوں کو انکی شخصیت کے بارے علم تھا ، اور لوگوں پران کے فضائل اور انکی عظمت ایک دوسرے پر ظاہر ہوئی ۔اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہوا تو حضرت امیر المومنین ، فاطمہ ، حسن اور حسین علیہم السلام لوگوں کے درمیان تھے اور انہیں دیکھ کر خود کو تسلی دیتے تھے ، اور جب حضرت امیر المومنین علیہ السلام شہید ہوئے ، حسن اور حسین علیہما السلام کو دیکھ کر لوگوں کو تسلی ہو جاتی تھی ، اور جب حضرت امام حسن ع شہید ہوئے ،تو لوگ امام حسین علیہ السلام کی فیوضات کی کثرت سے فیض حاصل کرتے تھے۔۔ امام حسین علیہ السلام کو دیکھ کر خود کو تسلی دیتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کی شہادت ان سب کے جانے کی طرح تھی اور یہ مصیبت عظیم ہونے کی وجہ یہ ھے کہ آپ کی شھادت کے بعد اصحاب کساء اور آل عباء میں سے کوئی باقی نہ رہا۔ اس لئے یہ دن عظیم ترین مصیبت کا دن ہے۔( بحار الانوار ج 44ص269)
2: حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کاسانحہ تاریخ میں سب سے زیادہ عظیم ترین سانحہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی شہادت کی نوعیت تاریخ انسانیت میں نظیر نہیں ۔حتی حضرت رسول اکرم بھی باربار گریہ کرتے تھے
۔3:حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: بچپن میں حسین علیہ السلام جب بھی رسول اللہ ص کے پاس آتے وہ آپ کو اپنے پہلو میں بٹھاتے اور چومتے تھے اور گریہ فرما تے تھے ۔ایک دن امام حسین علیہ السلام نے کہا: ناناجان:! آپ مجھے اور روتے کیوں ہے ؟ حضرت نے فرمایا:
میرے بیٹے ! میں دشمنوں کی تلواروں کے لگنے کی جگہوں کو چومتا ہوں۔فرمایا: ناناجان۔کیامیں قتل کردیا جاؤں گا ؟ فرمایا: ہاں خداکی قسم تمہارے بابا اور بھائی سبھی قتل کئے جائیں گے۔ امام حسین علیہ السلام نے کہا: ہمارے مقام ہائے شہادت ایک دوسرے سے جدا جدا ہوں گے؟ حضور نے فرمایا: ہاں میرے بیٹے ۔امام مظلوم نے کہا: آپ کی امت میں سے ہماری زیارت کے لیے کون آئے گا؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: میری امت کے صدیقوں کے علاوہ تمہارے بابا، بھائی اور تمہاری زیارت کے لئے کوئی نہیں آئے گا( کامل الزیارة ص 70ح 4)
4:حضرت علی علیہ السلام نے حضور اکرم صلی سے عرض کیا: آپ حسین (ع) کو دیکھ کر گریہ کیوں فرماتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: میں تلواروں کی جگہ کو چومتا ہوں۔( سحاب رحمت ص 154)
5: حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں شداد بن ھاد نامی شخص سے بیان کیا کہ اس نے کہا:
خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوپہر یا شام کی دو نمازوں میں سے ایک کے دوران ہمارے پاس آئے اور ان کے دو بچوں میں سے ایک حسن اور حسین ان کے ساتھ تھے ، اس لیے وہ صفوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور دونوں بچوں کو اس کے دائیں پاؤں پر رکھا اس نے خود کو نیچے رکھا پھر سجدہ کیا اور سجدہ اور سجدے کو زیادہ طول دیا۔
راوی کہتا ہے: میرے والد نے کہا: میں نے لوگوں کے درمیان سجدہ سے اپنا سر اٹھایا اور دیکھا کہ خدا کے رسول (ص) سجدہ میں تھے اور وہ بچہ رسول خدا (ص) کی پشت پر سوار تھا ، میں سجدے میں واپس آیا اور نماز ختم ہونے کے بعد ، لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ (ص) ، یہ طویل نماز جو آپ نے آج پڑھی اور آپ نےایک لمبا سجدہ کیا جو آپ نے دوسری نمازوں میں نہیں کیا تھا۔ کیا آپ کو اس کے بارے میں کوئی حکم ملا یا وحی آئی آپ پر؟
حضور نے فرمایا: اس میں سے کچھ بھی نہیں تھا ، لیکن میرا بیٹا میری پیٹھ پر سوار تھا اور میں اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ خود جو چاہے کر سکے اور خود اپنی مرضی سے اتر آئے۔
(کتاب المستدرک حاکم نیشاپوری
جلد 3صفحہ 165)
رسول خدا (ص) کے ہر فعل حکمت سے خالی نہیں ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنی اس سیرہ سے امت کو امام حسین علیہ السلام کامقام دکہادیا اور حضور نے واضح کیا کہ امام حسین علیہ السلام خدا اور رسول خدا کے نزدیک کس قدر عزیز ہے لیکن اس کے باوجود امت نے کربلا میں خاندان عصمت و طہارت کے ساتھ ایسا سلوک اور جفا کیا کہ جس سے قیامت تک تاریخ نہیں بھولے گی۔